ماسٹر ابوالمکارم خان کے آسان و مسنون نکاح کی عملی تقریب میں شرکت، مجلس میں شریک مسلمانوں سے بندہ محمد اطہر القاسمی کی اپیل


______________________

کل گذشتہ شب ضلع ارریہ کے پنچایت ارریہ بستی میں واقع معروف گاؤں بھنگیہ کے ماسٹر ابوالمکارم عرف ناز خان ابن محمد قاسم خان کا عقد نکاح اسی گاؤں کے الحاج رضوان احمد صاحب کی دختر نیک اختر کے ہمراہ ہوا۔

نکاح عاجز محمد اطہر القاسمی نے پڑھائی جبکہ مجلس نکاح میں موجود سابق ضلعی امیر جماعت اسلامی ہند جناب ماسٹر محمد محسن،کلیۃ الصالحات ارریہ کے استاذ مولانا امام الحق اصلاحی،بیرگاچھی چوک جامع مسجد کے امام و خطیب مولانا محمد طیب قاسمی اور پنچایت کے مکھیا الحاج شاد احمد وغیرہ نے نو عروس کو مبارکباد اور اپنی نیک خواہشات پیش کی۔

ماسٹر ابوالمکارم خان کے آسان و مسنون نکاح کی عملی تقریب میں شرکت، مجلس میں شریک مسلمانوں سے بندہ محمد اطہر القاسمی کی اپیل


عقد مناکحت سے قبل خطبہ مسنونہ پڑھتے ہوئے مجلس نکاح کے شرکاء سے بندہ محمد اطہر القاسمی نے کہاکہ الحمد للّٰہ دو سال کی اس مدت میں آسان و مسنون نکاح کی عملی تقریب کا یہ سولہواں نکاح ہے۔ماسٹر ابوالمکارم صاحب میرے عزیز دوست ہیں اور قوم وملت کی تعمیر وترقی کا بےپناہ جذبہ رکھتے ہیں،انہوں نے مجھے دو گھنٹہ قبل فون کرکے دعوت دی کہ مفتی صاحب!میرا نکاح طے ہوگیا ہے،نکاح لین دین اور دیگر تمام تر لوازمات و خرافات سے پاک ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری لخت جگر فاطمہ بتول کی سنت مہر فاطمی بھی طے کرلی گئی ہے،میری خواہش ہے کہ آپ میرا نکاح پڑھا دیں۔

بندہ نے کہاکہ موجودہ بگڑے ہوئے ماحول میں ایک خودکفیل نوجوان کے اس جذبے کو سلام کرتے ہوئے میں یہاں حاضر ہوں اور آپ سب بھی بڑی تعداد میں انہیں دعائیں دینے کے لئے جمع ہوگئے ہیں۔یہ نکاح ہرطرح کے موجودہ خرافات سے پاک ہے،آپ سب اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں،کیا یہاں جتنے مسلمان جمع ہیں اگر آج طے کرلیں کہ ہمیں اسی طرح اپنے گھرانے کے نکاحوں کو عملی جامہ پہنانا ہے تو شادیاں آسان و مسنون ہوسکتی ہیں یا نہیں؟

عاجز نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہا کہ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم اہل ایمان نے اپنے نکاحوں کو باضابطہ تجارت اور کاروبار بنارکھا ہے اور بغیر لین دین اور دیگر لوازمات کے نکاح کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔لیکن اسی سماج میں ماسٹر ابوالمکارم صاحب جیسے باہمت نوجوان کا نکاح ایک عملی پیغام،مثبت تحریک،خوبصورت پہل اور پریکٹیکل مثال ہے،اس کامطلب یہ ہے کہ سماج ابھی زندہ ہے اور سماج کے لوگ عزم کرلیں تو آج بھی آسان و مسنون نکاح کا رواج قائم ہوسکتا ہے اور بیٹیوں کے حوالے سے سماج میں زحمت کے تصور کے بجائے رحمت کا مزاج بن سکتا ہے۔عاجز کی اس گفتگو سے نوجوان شرکاء اور ان کے گارجین نے اپنے گھرانے کے نکاحوں کو اسی انداز میں انجام دینے کا وعدہ کیا اور پھر ایجاب و قبول کے بعد عاجز نے زوجین کے ساتھ تمام شرکاء کے لئے دعائیں کی۔

اس مجلس نکاح میں بطورِ خاص طرفین کے والدین جناب محمد قاسم خان و الحاج رضوان احمد خان سمیت سفیان خان،نیر خان،شارب خان،روض خان،نظیر خان،ابونصر خان،ماسٹر محمد راشد و ماسٹر محمد اشراق وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔